مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ محمد ابراہیم صابری: ایران اور پاکستان کے درمیان گذشتہ چند عرصے سے اعلی سطحی ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ایرانی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر علی لاریجانی کا اسلام آباد کا دورہ ہے۔ اس دورے میں اعلی ایرانی اہلکار نے پاکستان کے وزیر اعظم، صدر اور فوج کے سربراہ سے ملاقاتیں کیں۔ یہ دورہ صرف رسمی ملاقات سے بڑھ کر علاقائی اور عالمی سطح پر خاص طور پر جنوبی ایشیا کے لیے سیکورٹی، سیاسی اور اسٹریٹجک پیغامات کا حامل تھا۔
اس سے پہلے دیگر ایرانی اعلی شخصیات نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس میں صدر مسعود پزشکیان، پارلیمنٹ کے اسپیکر محمدباقر قالیباف اور وزیر خارجہ عباس عراقچی کا دورہ شامل ہے۔ یہ مربوط اور با مقصد سرگرمیاں واضح کرتی ہیں کہ پاکستان کو ایران کی خارجہ پالیسی میں ایک خصوصی اور اسٹریٹجک مقام حاصل ہے۔
اسلام آباد میں لاریجانی کی موجودگی اور اعلی پاکستانی حکام سے ملاقاتیں اس بات کی علامت ہیں کہ ایران پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز چاہتا ہے۔ دورے کے دوران ایران نے واضح کیا کہ پاکستان کا خطے کے مستقبل کی سلامتی میں کردار ناقابل انکار اور اہم ہے۔
12 روزہ جنگ میں پاکستانی عوام کی حمایت پر قدردانی
اس دورے کے نمایاں نکات میں سے ایک علی لاریجانی کی پاکستان کے علماء، دانشوروں اور مذہبی شخصیات سے ملاقات تھی۔ انہوں نے رہبر معظم انقلاب کا خصوصی سلام پاکستانی عوام تک پہنچایا، جسے عوام، سرکاری میڈیا اور سوشل میڈیا پر بے مثال پذیرائی ملی۔
لاریجانی نے پاکستانی عوام اور دانشوروں کی 12 روزہ جنگ کے دوران ایران کی حمایت پر بھی شکریہ ادا کیا۔ پاکستانیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر حمایت سے یہ ظاہر ہوا کہ پاکستان میں ایران کا حلقہ اثر وسیع اور دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے قائم ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان موجود اس رشتے کو اسٹریٹجک سرمایہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
توانائی کے شعبے میں تعاون کے مواقع
ایران–پاکستان گیس پائپ لائن کئی سالوں سے بیرونی دباؤ کی وجہ سے پاکستان میں رکی ہوئی ہے۔ لاریجانی کے دورے میں اس نامکمل منصوبے پر بھی خصوصی غور کیا گیا۔ اس حوالے سے لاریجانی نے کہا کہ اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوتیں تو آج پاکستان کے عوام ایران کے گیس سے استفادہ کر رہے ہوتے۔
اس سے بیرونی عوامل کا پاکستان کو مستحکم توانائی کے وسائل سے محروم کرنے میں کردار واضح ہوتا ہے۔ اس وقت جب پاکستان انرجی کے ریکارڈ بحران کا سامنا کر رہا ہے، ایران دنیا کی بڑی توانائی طاقتوں میں سے ایک ہونے کے ناطے اس کا سب سے فطری شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔ اگر بیرونی دباؤ اور رکاوٹیں کم ہوجائیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ توانائی کے شعبے میں تعاون تہران–اسلام آباد تعلقات کا بنیادی ستون بن جائے گا۔
ایران-پاکستان دفاعی تعاون، خطے کی سیکورٹی کا ضامن
لاریجانی کا پاکستان کے فوجی سربراہ سے ملاقات اس دورے کا اہم حصہ تھی۔ پاکستان میں فوج ملک کی خارجہ پالیسی اور سکیورٹی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایران اس ملاقات کے ذریعے ایک نیا سکیورٹی اور سرحدی تعاون کا طریقہ اپنانا چاہتا ہے تاکہ سرحدی خطرات سے نمٹا جا سکے اور دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرکے علاقے میں پائیدار سکیورٹی قائم ہو۔
ایران جغرافیائی لحاظ سے اہم مقام رکھتا ہے اور بھارت، پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتا ہے۔ ساتھ ہی ایران کو خطے کے مسائل کو حل کرنے اور ثالثی کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے، جس کی وجہ سے یہ خطے میں امن قائم کرنے والا اہم ملک ہے۔
لاریجانی کے دورے سے یہ ظاہر ہوا کہ ایران نہ صرف اپنی صلاحیت سے آگاہ ہے بلکہ اس کو استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ ایران کے اس تعمیری کردار سے خطے میں امن اور استحکام قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
حاصل سخن
لاریجانی کا یہ دورہ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ دورہ، جو صدر پزشکیان اور اسپیکر قالیباف کے حالیہ دوروں کے بعد ہوا، ایک واضح پیغام رکھتا ہے کہ پاکستان ایران کے لیے اہم ہے۔ ایران خطے میں امن اور سکیورٹی کے لیے ایک مضبوط اور فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس دورے کے سکیورٹی، سیاسی، ثقافتی اور توانائی کے پیغامات کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہوں گے، جہاں تہران اور اسلام آباد نہ صرف ہمسایہ شریک بلکہ جنوبی ایشیا کے مستقبل کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔
آپ کا تبصرہ